عام طور پر میڈیکل کے طلبہ سمجھتے ہیں کہ میڈیکل میں ایم بی بی ایس، ڈی وی ایم، بی ڈی ایس اور فارما ڈی کے علاوہ آپشنز نہیں۔ جبکہ انجینرنگ کے طلبہ بھی متعدد اہم ڈگریوں اور ان کے سکوپ سے بے خبر ہو تے ہیں۔ اور بعض اوقات کئی نہایت ہونہار طالبعلم معلومات نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم آگے نہیں بڑھا سکتے یا ایک اچھی ڈگری میں داخلہ نہیں لے پاتے۔
ذیل میں مختلف ضروری معلومات کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کے لیے کیا کیا آپشنز موجود ہیں۔ پوسٹ کو آخری سطر تک پڑھنا مفید ہوگا کیونکہ یہ پوسٹ آپ کے مستقبل سے متعلق ہے۔ داخلہ لیتے وقت چند باتوں کو ملحوظ رکھیں۔
1۔ پرائیویٹ یونیورسٹیز پر سرکاری یونیورسٹیز کو ہمیشہ ترجیح دیں۔ خواہ آپ پرائیویٹ یونیورسٹی کے اخراجات اٹھا سکتے ہوں کیونکہ سرکاری یونیورسٹیز کا متبادل کبھی بھی پرائیویٹ سیکٹر نہیں ہو سکتا۔
2۔ کوشش کریں کہ آپکا ایڈمیشن یونیورسٹی کے مین کیمپس میں ہو۔ سب کیپمس میں داخلہ ہرگز نہ لیں البتہ پنجاب یونیورسٹی ، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد اور یو ای ٹی کے سب کیمپسس ایچ ای سی کے معیارات پر پورے اترتے ہیں۔ ایچ ای سی نے متعدد سب کیمپسس بند کر دیے ہیں کیونکہ ان کے پاس مقررہ معیار کی فکیلٹی اور انفرا سٹرکچر موجود نہیں۔
3۔ مرجنگ ڈگریز کی طرف نہ جائیں۔یورپ کو دیکھ کر ہمارے ہاں ایسی ڈگریاں متعارف کروائی گئی ہیں جن میں ایک سے زیادہ شعبوں اور کورسسز کو مرج کر دیا گیا ہے۔فی الحال پاکستان میں ان کا سکوپ نہیں۔
4۔ میڈیکل کے طلبہ ٹیکینکل فیلڈز کا انتخاب کریں۔
5۔ بڑے شہروں میں موجود یونیورسٹیز کا میرٹ بھی عموما زیادہ ہوتا ہے۔ دوسرے شہروں میں یا دور دراز قائم یونیورسٹیز کے بارے میں بھی معلومات حاصل کریں۔ لیکن کسی بھی شہر میں امن و امان کی صورتحال کو بھی ضرور مد نظر رکھیں۔
6۔ ایسی یونیورسٹیز سے اجتناب کریں جہاں پر تعلیم سے زیادہ سیاست کا رنگ ہو۔
7۔ بلوچستان کے سٹوڈنٹس کے لیے پاکستان کے ہریونیورسٹی میں مخصوص داخلہ کوٹہ اور سکالرشپس بھی ہیں. اورپنجاب کی یونیورسٹیز میں ہر ڈیپارٹمنٹ میں بلوچستان کے ایک سٹوڈنٹ کو فری تعلیم دیجاتی ہے.
8۔ ایسا پروگرام چنیں جس میں ترقی کے امکانات زیادہ ہوں ۔
9۔ آج کل مختلف ملکی اور غیر ملکی ادارے سکالرشپس بھی آفر کرتے ہیں۔ جن سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
10۔ بیرون ملک تعلیم بھی ایک آپشن ہے۔ اور وہاں کے اخراجات نھی بعض اوقات طلباء خود ہی برداشت کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں کیونکہ کئی ممالک میں پارٹ ٹائم کام کرنے کی اجازت بھی مل جاتی ہے۔
1۔ پرائیویٹ یونیورسٹیز پر سرکاری یونیورسٹیز کو ہمیشہ ترجیح دیں۔ خواہ آپ پرائیویٹ یونیورسٹی کے اخراجات اٹھا سکتے ہوں کیونکہ سرکاری یونیورسٹیز کا متبادل کبھی بھی پرائیویٹ سیکٹر نہیں ہو سکتا۔
2۔ کوشش کریں کہ آپکا ایڈمیشن یونیورسٹی کے مین کیمپس میں ہو۔ سب کیپمس میں داخلہ ہرگز نہ لیں البتہ پنجاب یونیورسٹی ، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد اور یو ای ٹی کے سب کیمپسس ایچ ای سی کے معیارات پر پورے اترتے ہیں۔ ایچ ای سی نے متعدد سب کیمپسس بند کر دیے ہیں کیونکہ ان کے پاس مقررہ معیار کی فکیلٹی اور انفرا سٹرکچر موجود نہیں۔
3۔ مرجنگ ڈگریز کی طرف نہ جائیں۔یورپ کو دیکھ کر ہمارے ہاں ایسی ڈگریاں متعارف کروائی گئی ہیں جن میں ایک سے زیادہ شعبوں اور کورسسز کو مرج کر دیا گیا ہے۔فی الحال پاکستان میں ان کا سکوپ نہیں۔
4۔ میڈیکل کے طلبہ ٹیکینکل فیلڈز کا انتخاب کریں۔
5۔ بڑے شہروں میں موجود یونیورسٹیز کا میرٹ بھی عموما زیادہ ہوتا ہے۔ دوسرے شہروں میں یا دور دراز قائم یونیورسٹیز کے بارے میں بھی معلومات حاصل کریں۔ لیکن کسی بھی شہر میں امن و امان کی صورتحال کو بھی ضرور مد نظر رکھیں۔
6۔ ایسی یونیورسٹیز سے اجتناب کریں جہاں پر تعلیم سے زیادہ سیاست کا رنگ ہو۔
7۔ بلوچستان کے سٹوڈنٹس کے لیے پاکستان کے ہریونیورسٹی میں مخصوص داخلہ کوٹہ اور سکالرشپس بھی ہیں. اورپنجاب کی یونیورسٹیز میں ہر ڈیپارٹمنٹ میں بلوچستان کے ایک سٹوڈنٹ کو فری تعلیم دیجاتی ہے.
8۔ ایسا پروگرام چنیں جس میں ترقی کے امکانات زیادہ ہوں ۔
9۔ آج کل مختلف ملکی اور غیر ملکی ادارے سکالرشپس بھی آفر کرتے ہیں۔ جن سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
10۔ بیرون ملک تعلیم بھی ایک آپشن ہے۔ اور وہاں کے اخراجات نھی بعض اوقات طلباء خود ہی برداشت کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں کیونکہ کئی ممالک میں پارٹ ٹائم کام کرنے کی اجازت بھی مل جاتی ہے۔
11۔ اچھی طرح تسلی کر لیں کہ جس یونیورسٹی میں آپ داخلہ لینے جا رہے ہیں۔ وہ یونیورسٹی، اور یونیورسٹی کا وہ کیمپس اور یہ ڈگری پروگرام متعلقہ اداروں جیسا کہ ایچ ای سی، پی ای سی یا پی ایم ڈی سی وغیرہ سے منظور شدہ ہے۔
No comments:
Post a Comment